Posts

لبنان کاایک چرواہا خلیل جبران

 مصنف:خلیل جبران  بحوالہ کتاب:کلیات خلیل جبران  مرتب : حیدر جاوید سید                      (#لبنانکاایک_چرواہا)  موسم گرما اپنے آخری سانس لے رہا تھا کہ میں نے یسوع  کو شام کے وقت تین آدمیوں کے ہمراہ اس سڑک پر جاتےدیکھا۔وہ چراگاہ کے اس کونے پر جا کر ٹھر گیا۔ میری بانسری کے #نغمے فضا میں بکھر رہے تھے اور میرا گلہ میرے اردگرد چررہا تھا۔جب وہ ٹھر گیا تو میں اپنی   جگہ سے اُٹھا اور اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا "ایلیا"کی قبر کہاں ہے؟کیا یہ اُس جگہ کے نزدیک ہی کہیں پر ہے؟میں نے اسے جواب  دیا وہ دیکھئے وہاں پھتروں کے ڈھیر کے نیچے ہے،کیونکہ آج کے دن تک ہر ایک راہ گیر گزرتے ہوئے اس ڈھیر  پر ایک  پتھر رکھ دیتا ہے۔اُس نے میرا شکریہ ادا کیا اور اپنے  ساتھیوں کے ہمراہ چلا گیا۔تین دن کے بعد "گملی ایل" چرواہے نے مجھے بتایا کہ وہ شخص جو اس راہ سے گزرا تھا،یہودیہ میں نبی ہے لیکن میں نے اس کا یقین نہ۔ کیا تاہم کئی دنوں میں  اُس شخص کے متلعق سوچتا رہا۔ بہار کا موسم تھا کہ یسوع کا ایک بار اس چراگاہ کے پاس سے گزر ہوا۔اُس وقت وہ اکیلا تھا۔اس دن میری بانسری خاموش تھی کی

کہانی کا طلسم

 کہانی کا طلسم، ہر عمر اور ہر دور کو مسخر کرنے کی  صلاحیت رکھتا ہے ۔یہ طلسم، پتھر نہیں کرتا۔۔اثر رکھتا ہے ۔چلتے دور کی ہر خوبی کو گہنائے ہوئے دیکھنا اور گئے وقت کی کرنوں کو سورج کرنا ۔۔۔عمومی طور پر دل پسند انسانی مشغلہ ہے ۔مگر وائے قسمت ۔۔کہ یہ حال کی بدولت ہے ۔۔۔جو نظر ۔۔سماعت اور لمس کی حد میں ہے!  خود کو کائنات سمجھ لینا اور کائنات کا حصہ سمجھ کر زندگی گزارنے سے زندگی اور اس کے گزارنے والے ۔۔۔دونوں کو فرق پڑتا ہے ۔ اکیلا ہونا صرف خدا کو زیبا ہے اور اسی لئے کوئی کتنا بھی آدم بے زار ہونے کا دعوٰی کرے ۔۔اکیلا نہیں رہتا ۔۔۔! ہر لمحہ جو زندگی کے نام پر رواں دواں ہے ۔۔کہانی ہے!  ہر آنکھ ۔۔جو دیکھتی ہے ۔۔نکتے کی تصویر بنانے کی اہل ہے ۔۔مگر وہ نکتہ کہاں سے کیا اٹھاتا ہے اور تصویر کے رنگ کتنے دل پذیر ہیں ۔۔یہ بھی ایک منفرد صلاحیت ہے جو کہانی کاروں کو ودیعت کی جاتی ہے  ۔۔۔! آج کی جدید دنیا ۔۔حساس کیمروں اور تکنیکی مہارتوں کے سبب، ہماری منشا سے بے نیاز ۔۔کانوں کان خبر کئے بغیر ۔ ۔راز جاننے اور افشا کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔۔مگر ۔۔اس ذہن رسا کو کیا کہیے ۔۔کہ جس کی ہفت رنگی آج بھی نادر

ميگھدوُت , ڪاليداس

 اَوائِلي سنسڪرت ادب جي شاھڪار تخليق ميگھدوُت    مُڪيش بارٿاڻي  ڪاليداس سنسڪرت ٻوليءَ جو عظيم شاعر ٿي گذريو آھي. جنھن پنھنجي دور جي شاعري ۽ ڊرامن جا ڪيترائي جُلد سنسڪرت ٻوليءَ کي ارپيا آھن. جنھن ۾ شڪونتلا، رُت سمارا،  وڪرموروسيا، اُروَسي. ڪمارا سمبوا ۽ رُڳووسا جھڙيون شاھڪار تخليقون شامل آھن. پر عظيم ليکڪ ڪاليداس جي لکڻين مان ميگھ دُوت ۽ ڊرامو “شڪونتلا” تمام گھڻو مشھور ٿيا. جنھن کي عالمي سطع تي پڻ بيحد پذيرائي ملي ھئي. شڪونتلا سڀ کان پھرين ڊارمو جديد يورپين ٻوليءَ ۾ ترجمو ڪيو ويو. وليم جانس جنھن ڪاليداس کي “ڀارت جو سيڪسپيئر” سڏيو آھي. ميگھ دُوتم ھڪ ننڍڙي ڪتاب گيت مالھا تي مشتمل ڊگھي خوبصورت شاعري جي لَڙِي  جيڪا اوائلي وقت جي سنسڪرت جي شاھڪار تخليق آھي. ميگھ دُوت ۾ شاعر ڪاليداس ڪڪر کي، پنھنجي زال کان وڇڙيل يُڪش ( ديوتا جو نالو) جو زال ڏانھن نياپو پھچائڻ وارو قاصد بڻايو آھي. وڇوڙو ڪيتريون ئي يادگيريون تازه ٿو ڪري ٿو، ۽ ڏک جي علامت آھي. شاعريءَ ۾ اھڙي منفرد نموني ۽ نھايت ئي موھيندڙ لفظن سان اظھار ڪيو ويو آھي. جنھن ميگھ دُوت جي تخليق ڪندڙ عظيم سنسڪرت جي شاعر ڪاليداس کي ھميشہ جي لاءِ اَمر ڪر

بول کہ کس کا کس سے پیٹ نہیں بھرتا

 ”بول کہ کس کا کس سے پیٹ نہیں بھرتا؟“ ”ہے راجہ! نو چیزوں کا نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔“ ”کن نو چیزوں کا کن نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا ؟“ ”ساگر کا ندیوں کے پانی سے، اگنی کا ایندھن سے، ناری کا بھوگ سے، راجہ کا پاٹ سے، دھنوان کا دھن دولت سے، ودوان کا ودیا سے، مورک کا موڑنا سے اور اتیاچاری کا اتیاچار سے۔“ یہ سن کر راجہ نے اس کے چرن چھوۓ ”دھنیہ ہو منی مہاراج، میں نے تمہیں سو گٸوٸیں دان دیں۔“ “سوٸیکار کیا۔ اور پوچھ” ”ہے منی مہاراج میں کیسے چلوں؟“ ”سوریہ کے اجالے میں چل۔“ ”سوریہ جب ڈوب جاۓ پھر؟“ ”پھر چندرماں کے اجالے میں چل۔“ ”چندرماں ڈوب جاۓ، پھر؟“ ”پھر تو دیا جلا اس کے اجالے میں چل۔“ ”دیا بجھ جاۓ پھر؟“ ”پھر آتما کا دیا جلا، اور اس کے اجالے میں چل۔“ راجہ نے پھر چرن چھوۓ ”دھنیہ ہو منی مہاراج، میں نے تمہیں سو گٸوٸیں اور دان دیں۔“ راجہ نے پھر دھنش سیدھی کی۔ بان جوڑنے لگا تھا کہ منی بولا ”راجہ بس کر“ ”کس کارن بس کروں؟“ ”اس کارن کہ سنسار میں گٸوٸیں بہت تھوڑی ہیں، اور پوچھنے کی باتیں بہت ہیں۔“ ناول بستی۔ انتظار حسين  ٹاٸپنگ: کش کمار

DAFFODILS....اردو منظوم ترجمہ

 [10:44 AM, 8/12/2020] +92 344 1386040: HE DAFFODILS....اردو منظوم ترجمہ By William Wordsworth... I wandered lonely as a cloud That floats on high o'er vales and hills, When all at once I saw a crowd, A host, of golden daffodils; Beside the lake, beneath the trees, Fluttering and dancing in the breeze. Continuous as the stars that shine And twinkle on the milky way, They stretched in never-ending line Along the margin of a bay: Ten thousand saw I at a glance, Tossing their heads in sprightly dance. The waves beside them danced; but they Out-did the sparkling waves in glee: A poet could not but be gay, In such a jocund company: I gazed—and gazed—but little thought What wealth the show to me had brought: For oft, when on my couch I lie In vacant or in pensive mood, They flash upon that inward eye Which is the bliss of solitude; And then my heart with pleasure fills, And dances with the daffodils. سیرِکہسار میں تنہا صفتِ ابرِ رواں محوِ نظارہ میں اک روز چلا جاتا تھا ناگہاں جھیل کنارے ن

راحت_اندوری

 Rahat_Indori تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے  دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے   آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر  لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے  ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے  وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے  آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے  چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے  میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی  تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے   منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے  چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے راحت_اندوری

شام کے دھندلکے میں ایک ناری نظم

 شاعر:ڈی ایچ لارنس (برطانیہ) مترجم : رومانیہ نور (ملتان) * شام کے دھندلکے میں ایک ناری  کوملتا سے میرے لئے نغمہ سرا ہے یہ لمحہ مجھے  برسوں پہلے کے منظروں میں لے جا رہا ہے یہاں تک کہ میں دیکھتا ہوں جھنجھناتے تاروں کے بلند آہنگ میں پیانو تلے بیٹھا ایک بچہ ماں کے چھوٹے چھوٹے متوازن پاؤں دابتا ہے۔ ماں گاتی ہے اور اسے دیکھ کر مسکراتی ہے۔ مدہوش کُن گیت با دلِ نخواستہ مجھے  ماضی کے فریب میں لئے جاتا ہے میرا دل اتوار کی شاموں کو یاد کر کے آنسو بہاتاہے  جب باہر پڑتی سردی میں گرم نشست گاہ میں  پیانو کے سروں کے سنگ مناجات گونجتی تھیں اب سیاہ پیانو کی پر جوش دھن کے ساتھ  مغنیہ کا راگ الاپنا محض شورِ بے کار ہے بچپن کے دنوں کا نشہ مجھ پر چھایا ہے  میری جوانی افسردگی اور یادوں کے سیلاب میں بہی جاتی ہے میں یادِ ماضی میں اک بچے کی طرح روتا ہوں